28 نومبر، 2015

تدریسی بیاض (ٹیچر ڈائری) لکھنے کا آسان اور مؤثر طریقہ

دوستو، تدریسی بیاض یا ٹیچر ڈائری (Teacher Diary) لکھنا ایک ایسا کام ہے جو شاید ہم سبھی کو اپنی تدریسی زندگی میں کبھی نہ کبھی ضرور دشوار لگتا ہے۔ میں بھی سوچا کرتا تھا کہ خدا جانے یہ بلا کیوں ہمارے سر منڈھ دی گئی ہے۔ اسے کیسے لکھوں؟ کتنا لکھوں؟ کتنی بار لکھوں؟ وغیرہ وغیرہ۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ آخر اس بیگار کا فائدہ کیا ہے۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اور مجھے محکمۂِ تعلیم کی رمزیں سمجھ میں آتی گئیں، یہ کنفیوژن دور ہوتا گیا۔
آج میں آپ لوگوں کو بتاؤں گا کہ تدریسی بیاض کیسے لکھنی چاہیے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ سست سے سست لکھنے والے کے لیے بھی یہ پورے ہفتے میں صرف 6 منٹ کا کام ہے۔ پہلے ہم یہ بحث کریں گے کہ ٹیچر ڈائری ہفتے میں کتنے دن لکھی جائے۔ پھر ڈائری لکھنے کا طریقہ بتایا جائے گا اور آخر میں اس کے فوائد پر بات ہو گی۔ تو چلیے، بغیر کسی مزید تمہید کے کام کی بات پہ آتے ہیں!
how to write teacher diary - dsd - dte - government schools punjab - تدریسی بیاض (ٹیچر ڈائری) لکھنے کا آسان اور مؤثر طریقہ

تدریسی بیاض یا ٹیچر ڈائری کتنے دن لکھی جائے؟

محکمۂِ تعلیم پنجاب اور ڈی ایس ڈی (DSD) یعنی ڈائریکٹوریٹ آف سٹاف ڈیویلپمنٹ (Directorate of Staff Development) کے تازہ ترین مجوزہ معیارات کے مطابق اساتذہ کو ہفتے کے چھ دنوں میں سے تین دن تدریس اور تین دن جائزے میں صرف کرنے چاہییں۔ سادہ لفظوں میں اچھا استاد وہ ہے جو سوموار، منگل اور بدھ کو بچوں کو تعلیمی کیلنڈر کے مطابق پڑھائے اور جمعرات، جمعے اور ہفتے کے دن پڑھائے گئے مواد کا ٹیسٹ لے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ عنقریب یہ ہدایات سختی سے نافذ کی جائیں گی۔
لیکن حق یہ ہے کہ یہ طریقِ کار اساتذہ کا بوجھ بڑی حد تک کم کر سکتا ہے۔ پڑھانے کی مشقت استاد کریں اور امتحان دینے کی بچے۔ آدھا ہفتہ ان کی موج، آدھا ہفتہ ان کی۔ زبردست نا!
اب ظاہر ہے کہ جائزے کے دنوں میں تدریسی بیاض نہیں لکھی جا سکتی۔ لہٰذا فیصلہ یہ ہوا کہ آپ ہفتے میں تین دن ڈائری لکھیں گے۔ یعنی پہلے تین دن۔ سوموار، منگل، بدھ۔ اول تو کوئی ڈی ٹی ای (DTE) یا کوئی اور افسر اس سے زیادہ کا تقاضا نہیں کرے گا۔ لیکن اگر کوئی آپ سے اس سے زیادہ لکھنے کو کہے تواس سے پوچھیے کہ جائزے (Assessment) یعنی ٹیسٹ (Test) کے دنوں میں بھلا ہم ڈائری میں کیا لکھیں۔ اگر سمجھ دار ہوا تو چپ ہو جائے گا ورنہ اسے میرے پاس بھیج دیجیے گا!

 ٹیچر ڈائری لکھنے کے لیے کیا چاہیے؟

ٹیچر ڈائری لکھتے وقت آپ کے پاس مندرجہ ذیل چیزیں موجود ہونی ضروری ہیں:
  1. ایک عدد ٹیچر ڈائری (ظاہر ہے!)
  2. تعلیمی کیلنڈر
  3. ٹیچرز گائیڈ (Teachers' Guide)
  4. نصابی/درسی کتاب
  5. پین، پنسل، قلم!
  6. تھوڑی سی عقل اور صرف دو منٹ!

ٹیچر ڈائری کیسے لکھیں؟

ایک معیاری ٹیچر ڈائری کے عموماً چند طے شدہ حصے (Sections) ہوتے ہیں۔ اکثر ڈائریوں کے صفحات آپ کو مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم نظر آئیں گے۔
  1. جماعت یا درجہ (Class/Grade)
  2. مضمون (Subject)
  3. ٹیچرز گائیڈ یا کتاب کا صفحہ نمبر (Page No. of Teachers' Guide/Textbook)
  4. حاصلاتِ تعلم (Student Learning Outcomes/SLOs)
  5. سمعی و بصری معاونات (Audio-visual Aids)
  6. سرگرمیاں (Activities)
  7. جائزہ (Assessment)
لیں جی، تو شروع کریں کام؟
آخر دو منٹ میں مکمل بھی تو کرنا ہے۔ ارے ہاں بھئی، یہ تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ ہفتے میں چھ منٹ لگتے ہیں اور تین دن ڈائری لکھنی ہے تو ایک دن کے دو منٹ ہی لگیں گے نا!
ا) سب سے پہلے آپ اس جماعت کا درجہ لکھیں گے۔ یعنی سوم، چہارم، پنجم وغیرہ۔ یاد رکھیے، انگریزی میں لکھتے ہوئے صرف 4، 5 یا 2 وغیرہ لکھنے کی بجائے 4th، 5th، 2nd لکھنا بہتر ہے۔
ب) پھر آپ مضمون تحریر کریں گے۔ اس سلسلے میں ایک مفید بات یہ ہے کہ آپ کو ڈائری میں معاشرتی علوم، اسلامیات اور اردو کے بارے میں لکھنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے اگر آپ میری طرح کام چور یا سست ہیں تب تو ضرور خود کو صرف انگریزی، ریاضی اور سائنس تک ہی محدود رکھیں۔
ج) ٹیچرز گائیڈ یا کتاب کا صفحہ نمبر لکھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کو موجودہ مہینے کے پڑھائے جانے والے حاصلاتِ تعلیم (SLOs) کے بارے میں علم ہو۔ یہ جاننے کے لیے کہ اس مہینے آپ کو کیا پڑھانا ہے، دو طریقے ہیں۔
  1. اچھا طریقہ یہ ہے کہ آپ کے پاس تعلیمی کیلنڈر ہونا چاہیے۔ اس میں سے رواں ماہ کے لیے اپنی جماعت کے ہر مضمون کے حاصلاتِ تعلم پڑھیے۔ فرض کیجیے تیسری جماعت کی سائنس کے حاصلاتِ تعلم مثلاً نومبر کے مہینے کے لیے 12 ہیں۔ اب نومبر میں چار ہفتے ہوں گے اور ہر ہفتے میں تین دن آپ کو ڈائری لکھنی ہے۔ تین ضرب چار برابر ہے بارہ کے۔ یعنی ہر روز ایک حاصلِ تعلم (SLO)۔ اسی طرح آپ باقی مضامین کے حاصلاتِ تعلم کو مہینے کے ان دنوں کی تعداد پر تقسیم کر لیجیے جن میں آپ کو ڈائری لکھنی ہے۔
  2. دوسرا نسبتاً پرانا اور متروک طریقہ یہ ہے کہ ٹیچرز گائیڈ کے شروع کے صفحات کھنگالیے۔ ان میں آپ کو سال بھر کے حاصلاتِ تعلم مہیوں کے ناموں کے ساتھ لکھے نظر آئیں گے۔ یعنی نومبر میں آپ کو یہ، یہ اور یہ پڑھانا ہے۔ ان کو مہینے کے دنوں پر اوپر بیان کیے گئے طریقے کے مطابق تقسیم کر کے بھی آپ ہر روز کے حاصلاتِ تعلم معلوم کر سکتے ہیں۔
جب آپ کو معلوم ہو جائے کہ کل آپ کس مضمون کے کون کون سے حاصلاتِ تعلم پر بات کریں گے تو ٹیچرز گائیڈ یا نصابی کتاب کھول کر وہ حاصلات تلاش کر لیں اور اس کا صفحہ نمبر ڈائری میں لکھ دیں۔
د) حاصلاتِ تعلم آپ پہلے ہی تلاش کر چکے ہیں۔ انھیں تحریر کریں۔ اگر جگہ کم ہے اور حاصلات زیادہ ہیں تو ان میں سے صرف دو (2) لکھ دینا کافی ہے۔
ہ) سمعی و بصری معاونات ٹیچرز گائیڈ میں دیے گئے ہیں۔ ان میں سے چند یہاں لکھ دیں۔ یاد رکھیے کہ ہر مضمون کی نصابی کتاب اور تختۂِ سیاہ (Blackboard) یا تختۂِ سفید (Whiteboard) بھی سمعی و بصری معاونات میں شمار ہوتے ہیں۔ اگر کچھ اور نہیں ملتا تو آپ صرف یہی دو چیزیں بھی لکھ سکتے ہیں۔
و) سرگرمیاں بھی تمام تر ٹیچرز گائیڈ میں دی گئی ہیں۔ وہیں سے نقل ماریں۔ جگہ کم ہونے کی صورت میں صرف سرگرمی نمبر یا ٹیچرز گائیڈ کا صفحہ نمبر لکھ دیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی اور سرگرمی ممکن نہ ہو تو آپ بچوں سے کتاب خوانی کروا سکتے ہیں یعنی بچوں سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ باری باری کھڑے ہو کر سبق کو بآوازِ بلند پڑھیں یا انھیں بلا کر تختۂِ سیاہ وغیرہ پر سوال حل کروا سکتے ہیں۔
و) جائزے کے سوالات بھی ٹیچرز گائیڈ میں موجود ہوتے ہیں۔ ایک اور نقل ماریں۔ یہاں بھی صرف سوالات یا صفحوں کا نمبر لکھنے سے کام چل جائے گا۔ اگر ٹیچرز گائیڈ دستیاب نہیں یا پسند نہیں تو نصابی کتاب کے مشقی سوالات کا ذکر بھی کیا جا سکتا ہے۔

واحد استاد یعنی سنگل ٹیچر (Single Teacher) یا زیادہ جماعتوں کو پڑھانے والے اساتذہ کیا کریں؟

ایسے اساتذہ جن کے پاس ایک سے زائد جماعتوں کا کام ہو، انھیں چاہیے کہ وہ ایک دن میں کم از کم کسی ایک جماعت کے لیے ڈائری ضرور لکھیں۔ میری ذاتی رائے ہے کہ ایک دن میں دو سے زیادو جماعتوں کے لیے ڈائری لکھنا ضروری نہیں۔ زیادہ جماعتوں کی ذمہ داری رکھنے والے اساتذہ کو اور بڑے کام ہوتے ہیں اور یہ بات افسران کو بھی سمجھنی چاہیے۔
تدریسی بیاض (ٹیچر ڈائری) لکھنے کا آسان اور مؤثر طریقہ - تعلیمیات اردو بلاگ - how to write teacher diary - dsd - dte - government schools punjab - تدریسی بیاض (ٹیچر ڈائری) لکھنے کا آسان اور مؤثر طریقہ

ٹیچر ڈائری/تدریسی روزنامچہ/تدریسی بیاض لکھنے کے فوائد

سچی بات ہے، دوستو۔ یہ سب سے مشکل سوال ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس کے کچھ نہ کچھ فائدے تو ہیں۔
سب سے بڑا فائدہ تو یہی ہے کہ افسروں کی ڈانٹ ڈپٹ سے جان چھوٹ جاتی ہے۔ پھر یہ ہے کہ کوئی افسر اچانک بغیر اطلاع کے آ دھمکے اور آپ کی نیند شور سے کھل جائے تو جاگتے ہی آپ ٹیچر ڈائری دیکھ کر بولنا شروع کر سکتے ہیں۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ایسے موقعے بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ بندے کو پتا ہی نہیں چلتا کیا کرے۔ ایسے میں اگر ٹیچر ڈائری سامنے پڑی ہو تو کیا کہنے!
پھر یہ ہے کہ اگر آپ ڈائری لکھ کے رکھتے ہیں تو سبق کا خاکہ تو ذہن میں بن ہی جاتا ہے۔ اس سے پڑھانے میں کافی آسانی ہو جاتی ہے۔ ویسے نہ بھی ہو تو محکمے کو راضی کرنے کے لیے دو منٹ ضائع کرنے میں کیا ہرج ہے؟

15 تبصرے:

  1. بات تو سچ ہے ایسا ہی ہونا چاہئے

    جواب دیںحذف کریں
  2. بهت ضروري اور لازمي دائري لكهين مين بهي لكهتا هون الحمد لله

    جواب دیںحذف کریں
  3. اگر کسی دوست کے پاس کلاس سوئم اور چہارم 2016/2017 کا تعلیمی کیلنڈر اور حاصلات تعلم ہوں تو اسے شائع کر دیں

    جواب دیںحذف کریں
  4. پاکستان میں یہ سب فضول ہے ایک بم دھماکہ اور اس کے بعد لامحدود چھٹیاں اور زبردستی سکول بند کرانے کے بعد آپ کس کیلنڈر کے تحت نصاب مکمل کریں گے اور ڈائری لکھیں گے.صرف چہارم اور پنجم کی انگریزی کا ایک پیراگراف روزانہ پڑھائیں تو کم از کم پانچ دن سبق پر لگ جائیں گے اور اس بات کی بھی گارنٹی نہیں کہ سب بچوں کو سبق تیار ہو پھر مشق میں روزانہ ایک سوال حل کرائیں تو دس دن اور لگتے ہیں اس طرح ایک سبق پندرہ دن بعد مکمل ہوتا ہے جس میں کچھ بچے غیر حاضر بھی ہوتے ہیں جن کو سبق درست تیار نہیں ہوتا اور کچھ کے ذہنی معیار سے بلند ہوتے ہیں اس طرح طویل نصاب کو کور کرنا ہی اتنا مشکل ہے جبکہ طویل چھٹیوں کے بعد فروری میں امتحان شروع ہو جاتے ہیں ایسے میں جب بچوں کو صرف پڑھانے کا وقت بہت کم ہوتا ہے ٹیسٹ لینے اور ڈائری لکھنے کا فالتو وقت کہاں سے نکالا جائے.مشق کے علاوہ گرائمر اور مضامیںن کا نصاب الگ ہوتا ہے گویا ہم پانچویں کے بچوں کو نہیں بلکہ دنیا کے فطین ترین بالغوں کو علم دے رہے ہوتے ہیں جب سالانہ امتحان میں پنجاب ایکزامینیشن کمشن معصوم بچوں کو جو پرچہ دیتی ہے اس کا نصاب سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہوتا اور نہ ہی پرچہ بنانے والے خود اس کو حل کرسکتے ہیں اور پھر کسی علاقے میں نقل کی آسانی پیدا کرکے اور کسی میں باؤلے کتے کی طرح سختی سے بھونک کر بچوں کے مساوی حقوق کا قتل کیا جاتا ہے اور ان کی محنت کا استحصال کیا جاتا ہے .ایسے تعلیمی ماحول میں کچھ کرنے کی بجاۓ سب کو چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے

    جواب دیںحذف کریں
  5. پاکستان میں یہ سب فضول ہے ایک بم دھماکہ اور اس کے بعد لامحدود چھٹیاں اور زبردستی سکول بند کرانے کے بعد آپ کس کیلنڈر کے تحت نصاب مکمل کریں گے اور ڈائری لکھیں گے.صرف چہارم اور پنجم کی انگریزی کا ایک پیراگراف روزانہ پڑھائیں تو کم از کم پانچ دن سبق پر لگ جائیں گے اور اس بات کی بھی گارنٹی نہیں کہ سب بچوں کو سبق تیار ہو پھر مشق میں روزانہ ایک سوال حل کرائیں تو دس دن اور لگتے ہیں اس طرح ایک سبق پندرہ دن بعد مکمل ہوتا ہے جس میں کچھ بچے غیر حاضر بھی ہوتے ہیں جن کو سبق درست تیار نہیں ہوتا اور کچھ کے ذہنی معیار سے بلند ہوتے ہیں اس طرح طویل نصاب کو کور کرنا ہی اتنا مشکل ہے جبکہ طویل چھٹیوں کے بعد فروری میں امتحان شروع ہو جاتے ہیں ایسے میں جب بچوں کو صرف پڑھانے کا وقت بہت کم ہوتا ہے ٹیسٹ لینے اور ڈائری لکھنے کا فالتو وقت کہاں سے نکالا جائے.مشق کے علاوہ گرائمر اور مضامیںن کا نصاب الگ ہوتا ہے گویا ہم پانچویں کے بچوں کو نہیں بلکہ دنیا کے فطین ترین بالغوں کو علم دے رہے ہوتے ہیں جب سالانہ امتحان میں پنجاب ایکزامینیشن کمشن معصوم بچوں کو جو پرچہ دیتی ہے اس کا نصاب سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہوتا اور نہ ہی پرچہ بنانے والے خود اس کو حل کرسکتے ہیں اور پھر کسی علاقے میں نقل کی آسانی پیدا کرکے اور کسی میں باؤلے کتے کی طرح سختی سے بھونک کر بچوں کے مساوی حقوق کا قتل کیا جاتا ہے اور ان کی محنت کا استحصال کیا جاتا ہے .ایسے تعلیمی ماحول میں کچھ کرنے کی بجاۓ سب کو چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے

    جواب دیںحذف کریں
  6. پاکستان میں یہ سب فضول ہے ایک بم دھماکہ اور اس کے بعد لامحدود چھٹیاں اور زبردستی سکول بند کرانے کے بعد آپ کس کیلنڈر کے تحت نصاب مکمل کریں گے اور ڈائری لکھیں گے.صرف چہارم اور پنجم کی انگریزی کا ایک پیراگراف روزانہ پڑھائیں تو کم از کم پانچ دن سبق پر لگ جائیں گے اور اس بات کی بھی گارنٹی نہیں کہ سب بچوں کو سبق تیار ہو پھر مشق میں روزانہ ایک سوال حل کرائیں تو دس دن اور لگتے ہیں اس طرح ایک سبق پندرہ دن بعد مکمل ہوتا ہے جس میں کچھ بچے غیر حاضر بھی ہوتے ہیں جن کو سبق درست تیار نہیں ہوتا اور کچھ کے ذہنی معیار سے بلند ہوتے ہیں اس طرح طویل نصاب کو کور کرنا ہی اتنا مشکل ہے جبکہ طویل چھٹیوں کے بعد فروری میں امتحان شروع ہو جاتے ہیں ایسے میں جب بچوں کو صرف پڑھانے کا وقت بہت کم ہوتا ہے ٹیسٹ لینے اور ڈائری لکھنے کا فالتو وقت کہاں سے نکالا جائے.مشق کے علاوہ گرائمر اور مضامیںن کا نصاب الگ ہوتا ہے گویا ہم پانچویں کے بچوں کو نہیں بلکہ دنیا کے فطین ترین بالغوں کو علم دے رہے ہوتے ہیں جب سالانہ امتحان میں پنجاب ایکزامینیشن کمشن معصوم بچوں کو جو پرچہ دیتی ہے اس کا نصاب سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہوتا اور نہ ہی پرچہ بنانے والے خود اس کو حل کرسکتے ہیں اور پھر کسی علاقے میں نقل کی آسانی پیدا کرکے اور کسی میں باؤلے کتے کی طرح سختی سے بھونک کر بچوں کے مساوی حقوق کا قتل کیا جاتا ہے اور ان کی محنت کا استحصال کیا جاتا ہے .ایسے تعلیمی ماحول میں کچھ کرنے کی بجاۓ سب کو چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے

    جواب دیںحذف کریں
  7. پاکستان میں یہ سب فضول ہے ایک بم دھماکہ اور اس کے بعد لامحدود چھٹیاں اور زبردستی سکول بند کرانے کے بعد آپ کس کیلنڈر کے تحت نصاب مکمل کریں گے اور ڈائری لکھیں گے.صرف چہارم اور پنجم کی انگریزی کا ایک پیراگراف روزانہ پڑھائیں تو کم از کم پانچ دن سبق پر لگ جائیں گے اور اس بات کی بھی گارنٹی نہیں کہ سب بچوں کو سبق تیار ہو پھر مشق میں روزانہ ایک سوال حل کرائیں تو دس دن اور لگتے ہیں اس طرح ایک سبق پندرہ دن بعد مکمل ہوتا ہے جس میں کچھ بچے غیر حاضر بھی ہوتے ہیں جن کو سبق درست تیار نہیں ہوتا اور کچھ کے ذہنی معیار سے بلند ہوتے ہیں اس طرح طویل نصاب کو کور کرنا ہی اتنا مشکل ہے جبکہ طویل چھٹیوں کے بعد فروری میں امتحان شروع ہو جاتے ہیں ایسے میں جب بچوں کو صرف پڑھانے کا وقت بہت کم ہوتا ہے ٹیسٹ لینے اور ڈائری لکھنے کا فالتو وقت کہاں سے نکالا جائے.مشق کے علاوہ گرائمر اور مضامیںن کا نصاب الگ ہوتا ہے گویا ہم پانچویں کے بچوں کو نہیں بلکہ دنیا کے فطین ترین بالغوں کو علم دے رہے ہوتے ہیں جب سالانہ امتحان میں پنجاب ایکزامینیشن کمشن معصوم بچوں کو جو پرچہ دیتی ہے اس کا نصاب سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہوتا اور نہ ہی پرچہ بنانے والے خود اس کو حل کرسکتے ہیں اور پھر کسی علاقے میں نقل کی آسانی پیدا کرکے اور کسی میں باؤلے کتے کی طرح سختی سے بھونک کر بچوں کے مساوی حقوق کا قتل کیا جاتا ہے اور ان کی محنت کا استحصال کیا جاتا ہے .ایسے تعلیمی ماحول میں کچھ کرنے کی بجاۓ سب کو چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے

    جواب دیںحذف کریں