10 نومبر، 2015

سکول کے دورے میں افسران کو کیسے مطمئن کریں؟

محکمۂِ تعلیم میں گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ہر چیز کے معیارات طے ہوتے جا رہے ہیں جو نہایت خوش آئند امر ہے۔ جس طرح اساتذہ کے لیے ٹیچرز گائیڈ (Teachers' Guide) کی صورت میں ایک پیمانہ مقرر کر دیا گیا ہے جس کے مطابق اصولی طور پر تمام اساتذہ پڑھانے کے پابند ہیں بالکل اسی طرح ایم ای ایز (MEAs)، ڈی ٹی ایز (DTEs) اور محکمے کے افسران کے کام کرنے کے اصول بھی طے کر دیے گئے ہیں۔ آج ہم ایسے ہی چند اصول آپ کو بتائیں گے تا کہ آپ ڈی ایس ڈی (DSD) یا ایس ای ڈی (SED) یعنی سکول ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ (School Education Department) کے کسی بھی افسر کا پوری تیاری کے ساتھ سامنا کر سکیں اور انھیں مطمئن کر کے اپنے ساتھیوں پر خوب خوب رعب جما سکیں!
دوستو!
پرانے زمانوں میں کوئی بھی افسر جب بھی کسی تعلیمی ادارے کا دورہ کرتا تھا تو اپنی مرضی سے فیصلہ کر لیتا تھا کہ مجھے فلاں فلاں چیزیں چیک کرنی ہیں۔ کوئی بچوں کی وردیوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتا تھا تو کوئی صفائی میں کیڑے نکالنے کی قسم کھا لیتا تھا۔ کوئی طالبعلموں کی لکھائیاں دیکھتا پھرتا تھا تو کوئی ٹوائلٹ میں جھانک جھانک کر کے آپ کو شرمندہ کرتا تھا۔
اچھی بات یہ ہے کہ اب یہ باتیں تقریباً ختم ہو گئی ہیں۔ اب افسران آپ سے کچھ خاص باتوں کی توقع لے کر آتے ہیں۔ اگر آپ وہ چند کام کر سکیں تو سمجھیں آپ کا سکول زبردست ہے۔ خاص طور پر تعلیمی سال کے آخری دنوں میں یہ باتیں آپ کے لیے نہایت ضروری ہیں۔
محکمۂِ تعلیم کے نوے فیصد سے زائد افسران آپ کے سکول میں آ کر صرف تین چیزوں کو چیک کریں گے جو بالترتیب کچھ اس طرح ہیں:

  1. ٹیچر ڈائری (Teacher Diary)
  2. بچوں کا ذِمیہ کام (گھر کا کام)
  3. آٹھویں، پانچویں یا تیسری جماعت کے بچوں کی کارکردگی
DSD School Checking RPM Multan - Officers visit to school in Kabirwala

آئیے اب ان تینوں عوامل کو ذرا تفصیل سے دیکھتے ہیں۔

1۔ ٹیچر ڈائری

ٹیچر ڈائری استاد کی پیشہ ورانہ حیثیت کا سب سے بڑا پیمانہ ہے۔ آج کے اساتذہ کو پرانے زمانوں کے کلاسیکی استادوں سے جو چیز سب سے زیادہ ممتاز کرتی ہے وہ یہی تدریسی بیاض یا ٹیچر ڈائری ہے۔ اگر آپ افسروں پر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ آپ اپنی پیشہ ورانہ حیثیت سے بخوبی آگاہ ہیں اور گزرے زمانوں کے اساتذہ (جنھیں محکمہ غلط یا صحیح طور پر اچھا نہیں سمجھتا) سے مختلف ہیں تو آپ کو چاہیے کہ اپنی ٹیچر ڈائری کو مکمل رکھیں۔ آج کل عموماً افسران سب سے پہلے اسی کے متعلق پوچھتے ہیں کیونکہ اساتذہ کے لیے اسے ہر وقت تیار حالت میں رکھنا اسی قسم کے اصولوں میں سےایک ہے جن کے بارے میں ہم نے اوپر بات کی ہے۔
ٹیچر ڈائری آپ کے پاس ہونے سے افسران کو فوری طور پر یہ احساس ہو گا کہ آپ اپنی تدریسی ذمہ داریاں نبھانے میں مخلص ہیں اور اگر آپ میں کوئی اور کوتاہی ہے تو اس پر یا تو ان کی نظر ہی نہیں جائے گی یا پھر انھیں اس کے حوالے سے کچھ نہ کچھ نرمی ضرور برتنا پڑے گی کیونکہ آپ اپنے پیشے سے اپنا اخلاص ایک حد تک واضح کر چکے ہوں گے۔
ٹیچر ڈائری پاس ہونے کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اگر افسران آپ سے پڑھانے کو کہہ دیں تو آپ بلاتردد تدریس شروع کر سکتے ہیں۔ اس کے نہ ہونے کی صورت میں البتہ آپ کو بچوں سے پوچھنا وغیرہ پڑ سکتا ہے کہ آج کیا پڑھنا ہے۔ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہو گا کہ اس ڈائری میں آپ کتاب اور ٹیچرز گائیڈ وغیرہ کا صفحہ نمبر، موضوع اور حاصلاتِ تعلم (Student Learning Outcomes) وغیرہ لکھتے ہیں۔
ٹیچر ڈائری کو کم وقت میں اور آسان طریقے سے لکھنے کے بارے میں ہم انشاءاللہ آئندہ کسی مراسلے میں لکھیں گے۔

2۔ بچوں کا ذِمیہ کام (گھر کا کام)

دوسری چیز جو زیادہ تر افسران آپ کی جماعت میں آ کر چیک کریں گے بچوں کا ذِمیہ یا گھر کا کام (Home Work) ہے۔ افسران بچوں سے گھر کے کام کے بارے میں پوچھیں گے اور چند ایک سے کام دکھانے کو کہیں گے۔ بچوں کی کاپیاں دیکھتے ہوئے وہ مندرجہ ذیل عوامل کی بنیاد پر آپ کی کارکردگی کے بارے میں رائے قائم کریں گے:
  1. آپ نے ہفتے میں کم از کم تین مرتبہ بچوں کو گھر کا کام دیا ہے۔ یہ کام ایک دن میں صرف ایک مضمون کا بھی ہو سکتا ہے۔
  2. آپ نے کام چیک کرتے ہوئے تاریخ کا اندراج کیا ہے اور اپنے دستخط ثبت کیے ہیں۔
  3. آپ نے بچے کے کام میں موجود غلطیوں کی نشاندہی کی ہے اور ان کی اصلاح کی ہے۔
  4. اگر غلطیاں موجود نہیں تو آپ نے بچے کو تحریری طور شاباش دی ہے یا ستارہ وغیرہ بنا کر حوصلہ بڑھایا ہے۔
علاوہ ازیں کم از کم کچھ بچوں کی کاپیوں پر متعلقہ ڈی ٹی ای (DTE) کے دستخط وردعمل ہونا بھی ضروری ہیں جس کے لیے بہرحال آپ جواب دہ نہیں۔
اس لیے بہتر ہو گا کہ آپ سبق پڑھانے کے بعد بچوں کو روزانہ کم از کم ایک مضمون کا اتنا کام دیں جو ایک اوسط درچے کا طالبعلم کم و بیش ایک گھنٹے میں مکمل کر سکے۔ میری ذاتی رائے میں پرائمری کے بچوں کو بالخصوص اور مڈل کے بچوں کو بالعموم اردو، انگریزی، ریاضی اور سائنس وغیرہ کا ذمیہ کام زیادہ دینا چاہیے۔

3۔ آٹھویں، پانچویں یا تیسری جماعت کے بچوں کی کارکردگی

افسران عام طور پر پیک (PEC) یعنی پنجاب ایجوکیشن کمیشن (Punjab Education Commission) کے تحت امتحان دینے والی جماعتوں کے معائنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ لیکن ان دنوں گننے پڑھنے کی مہم (Literacy and Numeracy Drive) یعنی ایل این ڈی (LND) کے زوروں پر ہونے کی وجہ سے وہ تیسری جماعت میں بھی نازل ہو سکتے ہیں۔
ان تمام جماعتوں کے اساتذہ کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز یہ ہے کہ ان کے بچے الٹا سیدھا ہی سہی مگر افسران کو جواب دے سکیں۔ بچوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ افسران انھیں کوئی سزا نہیں دے سکتے۔ اس لیے وہ کھل کر بولیں۔ ردِ عمل ظاہر کرنے والے طالبعلم استاد کا ایک اچھا تاثر قائم کرتے ہیں چاہے ان کے جوابات صد فیصد غلط ہی کیوں نہ ہوں۔ اس کے برعکس منہ میں گھنگھیاں ڈال کر بیٹھ جانے والے بچے چونکہ جواب دیتے ہی نہیں لہٰذا ان کے استاد کو پکا نالائق سمجھ لیا جاتا ہے۔ بولنے والے بچے کم از کم یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہتے ہیں کہ ان کے استاد نے انھیں اعتماد دیا ہے۔ یہ خوبی افسران کو پگھلنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
بچے اپنے اساتذہ سے متاثر ہوتے ہیں۔ چونکہ معائنے کے وقت اساتذہ خوف زدہ اور سراسیمہ ہوتے ہیں اس لیے بچے بھی لاشعوری طور پر پریشان ہو جاتے ہیں۔ یہ چیز افسر کے سامنے انھیں بولنے نہیں دیتی۔ بچوں کو باور کرانا چاہیے کہ افسران ان کا تو بال بھی بیکا نہیں کر سکتے، استاد کی چاہے جان لے لیں۔ یہ بات بالکل حقیقت ہے کہ یو پی ای (UPE) جیسی سرکاری مہمات کی بدولت بڑے سے بڑا افسر بھی کسی بچے کو سکول سے خارج کرنے یا معمولی سزا دینے کی بھی کوشش نہیں کر سکتا۔ اس لیے بچوں کو کھل کر ہر بات پر اظہارِ خیال کرنا چاہیے۔ دیکھا جائے تو یہ طریقہ اساتذہ کے لیے ایک راہ کھولتا ہے جس سے وہ افسران تک وہ باتیں بھی پہنچا سکتے ہیں جنھیں کہنے کی تاب وہ خود نہیں رکھتے۔ عقلمند کو اشارہ کافی ہوتا ہے!

2 تبصرے: